خورشید ربانی ۔۔۔ اور تجھ سے، مجھ کو اسبابِ سفر کیا چاہیے

اور تجھ سے، مجھ کو اسبابِ سفر کیا چاہیے
میں مسافر ہوں‘ زمانے! مجھ کو رستہ چاہیے

تیرے ہاتھوں سے جلیں یا میرے ہاتھوں سے چراغ
شہر میں بس روشنی کو عام ہونا چاہیے

بے سرو سامان مجھ سا شہر میں کوئی نہیں
بے در و دیوار گھر کو مجھ سے اور کیا چاہیے

مجھ پہ گزری کیا قیامت ،تجھ کو اِس سے کیا غرض
تجھ کو تو ہنگامہ پرور حشر برپا چاہیے

چھوڑ کر تنہا تمھیں کیوں سب پرندے اُڑ گئے
خشک جھیلو ! آئنہ تم کو بھی دیکھا چاہیے

کیا کبھی تم نے یہ سوچا بجھ گئے کتنے دیے
تم کو تو اے شہر والو! بس اُجالا چاہیے

جان و دل لے کے مرے ٹھہری ہے کب وحشی ہوا
بعد میرے بھی ہوا کو سر کسی کا چاہیے

Related posts

Leave a Comment